جب حکومت ملی توجی ڈی پی گروتھ6فیصدتھی، اسحاق ڈار کا اعتراف
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اب معیشت میں گراوٹ رک چکی ہے، جب حکومت ملی توجی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تھی۔ آئی ایم ایف پروگرام کیلئے بہت بھاری سیاسی قیمت اداکی، پاکستان کیلئےبہت مشکل فیصلےکیےگئے، پاکستان کی ساکھ ختم ہو چکی تھی، دعاہے9واں اقتصادی جائزہ جلدمکمل ہو۔
ان خیالات کا اظہار وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کیا، ان کے ہمراہ وفاقی وزیر احسن اقبال، وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا و دیگر بھی موجود تھے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013میں حکومت سنبھالی تھی تو بہت مشکلات تھیں، حکومت پچھلےایک سال سےزمہ داری نبھارہی ہے، اس کوہم ای پاکستان یا5ای کانام دےسکتےہیں، ہمارے5ڈرائیونگ ایریازہیں اس حوالےسےروڈمیپ تیارکیاہے، حکومت نے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، رواں مالی سال انتہائی مشکل تھا، میکرواکنامک استحکام کی بحالی کیلئے پلان تیارکیا ہے، مقصد میکرواکنامک استحکام کی بحالی ہے، میکرواکنامک استحکام حکومت کاوژن ہے، 24سے47ویں معیشت تک جانےمیں بہت سارےمحرکات ہیں، 2013میں3ایز،اس سال5ایزکانام دیاہے، ایکسپورٹ،ایکویٹی،امپاورمنٹ،انوائرنمنٹ،انرجی کا نام دیاگیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت 2017 میں 24،2023میں47 ویں بنی، ہم نے ملک کو ترقی کے راستے پر لانا ہے، میکرواکنامک استحکام حکومت کاوژن ہے، جب حکومت سنبھالی توخسارہ اورمہنگائی کادباؤزیادہ تھا، پاکستان کے ڈیفالٹ کی باتیں ہورہی تھیں، ایک سہ ماہی میں زرمبادلہ ذخائرمیں6.4ارب ڈالرکمی آئی، اب معیشت میں گراوٹ رک چکی ہے، جب حکومت ملی توجی ڈی پی گروتھ6فیصدتھی، بیس لائن کی وجہ سےاگلےسال منفی گروتھ ہوگئی، اندرونی،بیرونی طورپرایک بات ہورہی تھی پاکستان ڈیفالٹ کررہاہے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ گزشتہ دورمیں کرنٹ اکاؤنٹ اورتجارتی خسارہ بڑھ گیا، 4سال میں گردشی قرضہ1148ارب سےبڑھ کر2467 ارب تک پہنچا، گزشتہ دورمیں گردشی قرضےمیں سالانہ330ارب اضافہ ہوا، جب ہم حکومت چھوڑرہےتھےتوجی ڈی پی گروتھ6فیصدتھی، اگلےسال جی ڈی پی ریٹ منفی پرچلاگیا، بیرونی سرمایہ کاری2.8بلین سے1.8بلین ہوگئی تھی، قرضوں میں97فیصداضافہ ہوا، ریونیوکازیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلاجاتاہے، 2017ء میں قرضوں کی ادائیگی کاحجم1800ارب سےکم تھا، 2022میں یہ رقم بڑھ کر7ہزارارب روپےتک پہنچ گئی، پالیسی ریٹ بڑھنےسےقرضوں کاحجم آسمان پرچلاگیا، موجودہ حکومت کومشکل عالمی حالات کابھی سامناکرناپڑا، سیلاب کی وجہ سے پاکستان نے بہت بڑا المیہ دیکھا، پاکستانی معیشت کو30ارب ڈالرسےزیادہ نقصان ہوا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب سےجی ڈی پی کو15.2ارب ڈالرنقصان ہوا، 14.9ارب ڈالرکےدیگر نقصانات بھی شامل ہیں، سیلاب سےبحالی کیلئے4سال میں16.3ارب ڈالردرکارہیں، جنیواکانفرنس میں بہت اچھارسپانس ملا، آئی ایم ایف پروگرام کیلئےبہت بھاری سیاسی قیمت اداکی، پاکستان کیلئےبہت مشکل فیصلےکیےگئے، پاکستان کی ساکھ ختم ہو چکی تھی، دعاہے9واں اقتصادی جائزہ جلدمکمل ہو، آئی ایم ایف کےعلاوہ دیگر اداروں سے 70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں، ہمیں بہت تکلیف دہ کام بھی کرنےپڑے، جب میں آیا تو کہا تھا ڈالر200 روپے سے کم ہوناچاہیےتھا، بلوم برگ کے2اکنامسٹ کےمطابق ڈالر 244کا ہوناچاہیے، غیرملکی کرنسی بھی بھاری تعدادمیں سمگل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ باہربیٹھ کرکہتےہیں پاکستان ابھی تک سری لنکاکیوں نہیں بنا، ایران اورروس سے بارٹر ٹریڈ کا اچھا فیصلہ ہوا، امید ہے ایران، افغانستان، روس سے بارٹر ٹریڈ کا فیصلہ اچھا ثابت ہو گا، تینوں ممالک کے ساتھ بینکنگ کے مسائل ہیں، گزشتہ سال 10 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ13.7بلین ڈالرتھا۔
انہوں ںے کہا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تھری ایز اسٹریٹیجی متعارف کروائی تھی اور ابھی بھی پانچ ایز اسٹریٹیجی پر پلان بنایا ہے، حکومت نے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا پے، سروے میں سماجی و اقتصادی ترقی ، زراعت، توانائی، آئی ٹی، صنعت سمیت تمام شعبے شامل ہیں، جب حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو مشکل صورتحال تھی اگر مزید کچھ عرصہ ذمہ داری نہ سنبھالتے تو خدا نخواستہ صورتحال کچھ اور ہوتی۔
انہوں ںے کہا کہ حالیہ عرصے میں جی ڈی پی 0.29 فیصد رہی پے، آئندہ جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، مہنگائی 29.2 فیصد رہی، رواں مالی سال جولائی تا نومبر مہنگائی کی اوسط شرح 18 فیصد رہی اس میں شہری و دینی علاقو میں کور انفلیشن کو مدنظر رکھ کر اوسط شرح نکالی جائے۔ ایف بی آر کی ریونیو کلیکشن گروتھ 16.1 فیصد رہی، ایف بی آر نے رواں مالی سال میں 6210 ارب روپے جمع کیے اور اب ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کررہے ہیں، مارچ تک سات لاکھ لوگ نئے ٹیکس دہندگان لانا تھے مگر نو لاکھ سے زیادہ ٹیکس دہندگان نیٹ میں شامل کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد بہتری آئی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 3.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا ہے، جولائی تا مئی میں درآمدات 72.3 ارب ڈالر سے کم ہو کر52.2 ارب ڈالر ہوگئی ہیں۔