حکمران اتحاد کا عدالتی آبزرویشن پر اظہار افسوس
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے حکمران اتحاد کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی آبزرویشن پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ آبزرویشن پارلیمان، وزیراعظم کی توہین کے مترادف اور قابل مذمت ہیں، آبزرویشن میں کہا گیا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت اور اعتماد کھو چکے ہیں۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس
وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس ہوا، اجلاس میں امیر جمعیت علمائے اسلام ف ، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو، اے این پی کے میاں افتخار، ایم کیو ایم خالد مقببول صدیقی، پیپلز پارٹی کے شیر پاؤ کے سربراہ افٓتاب شیر پاؤ، بی اے پی خالد مگسی ، آغا حسن بلوچ، مسلم لیگ ق کے چودھری سالک حسین، طارق بشیر چیمہ، جمعیت اہل حدیث کے ساجد میر، حافظ عبدالکریم، مسلم لیگ ن کی مریم اورنگزیب، اعظم نذیر تارڑ، رانا ثناء اللہ، ایاز صادق، اسحاق ڈار، قمر زمان کائرہ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن ایک ساتھ ہونے ہیں یا علیحدہ علیحدہ اورکب ہونے ہیں اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کسی کی ضد، انا اور خواہشات کے مطابق فیصلے نہیں ہو سکتے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کے لیے پارلیمنٹری کمیٹی کا فورم استعمال کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں، حکمران اتحادیوں کا اجلاس، وزیراعظم پر مکمل اظہار اعتماد
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں الیکشن کے لیے فنڈز کے اجراء کے حوالے سے پارلیمنٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور پارلیمنٹ کا فیصلہ مقدم ہے، سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اتحادیوں کے اجلاس کی اندرونی کہانی بھی سامنے آ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں پہلے ہی کہتا تھا کہ عمران خان غیرسنجیدہ شخص اورغیرضروری عنصرہے۔
ذرائع کے مطابق اتحادیوں کی اکثریت نے مذاکرات سے متعلق مولانا فضل الرحمن کے موقف سے اتفاق کیا۔ جبکہ سرکار نے آئینی اور قانونی محاذ پر بھرپور سیاسی جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار کیا کرتے ہوئے مذاکرات کے لیے کسی کا جبر اور زبردستی منظور نہیں کی جائیگی۔
اتحادی نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ بندوق اور ہتھوڑے کے زور پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، عدالت آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے، عدالت انصاف کے ترازو دیکھے، ثالثی کرانا اس کا کام نہیں، حالیہ دنوں آنے والی آڈیو لیکس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اتحادیوں نے عمران خان کے مذاکرات سے متعلق بیان کو بچگانہ حرکت قرار دیدیا
شرکاء نے موقف اپنایا کہ کبھی کہتا ہے مذاکرات کے لیےاسےنامزد کیا پھراپنی ہی باتوں سے پھرجاتا ہے، خود مذاکرات میں سنجیدہ نہیں تو ہم کیوں جھکیں، اب جو بھی بات چیت ہوگی پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے ہوگی، عمران خان کو بھی پارلیمنٹ کے فورم پر آنا ہوگا۔
اجلاس کا اعلامیہ
**حکمران جماعتوں کے سربراہوں کا اعلی سطح اہم مشاورتی اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔
اجلاس کے آغاز میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی ملک وملت کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔
اجلاس نے مرحوم کی مغفرت اور اہل خانہ کے لئے صبرجمیل کے لئے دعا کی۔ اجلاس نے تھانہ سی ٹی ڈی ،کبل، سوات کے سانحے پر افسوس اوراہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شہداء کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے صبر کے لئے بھی دعا کی۔ اجلاس نے دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی دفاع وسلامتی کے لئے برسرپیکار افواج کے افسران اور جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیاگیا اور خاص طورپر سپریم کورٹ کے متنازعہ اور یک طرفہ بینچ کے فیصلوں سے پیدا ہونے والے امور پر مشاورت کی گئی جبکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر ملک میں ایک ہی دِن انتخابات کرانے کے حوالے سے پہلے سے جاری مشاورتی عمل کو اگلے مرحلے میں لیجانے، اس ضمن میں قائم کردہ کمیٹی کی مشاورت اور دیگر سیاسی رابطوں کے تناظر میں مستقبل کی حکمت عملی پر غور ہوا۔
اجلاس نے متفقہ فیصلہ کیا کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل پر ایک ہی دن ملک بھر میں انتخابات کرانا بنیادی نکات ہیں، جو بھی حکمت عملی طے جائے گی، آئین کی بنیاد یہی دونکات ہوں گے۔
اجلاس نے وزیراعظم شہبازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئین کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور درپیش صورتحال میں تمام فیصلوں کا اختیاروزیراعظم کو تفویض کیا۔
اجلاس نے قراردیا کہ وزیراعظم شہبازشریف جو بھی فیصلہ کریں گے، اتحاد کی تمام جماعتیں اس کا بھرپور ساتھ دیں گی۔
اجلاس نے واضح کیا کہ ملک میں ایک ہی دِن شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق حکمران جماعتیں اپنے اندر سیاسی مشاورت کا عمل پہلے سے ہی شروع کرچکی ہیں اور یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اس خالصتا ً سیاسی معاملے میں سپریم کورٹ کا پنچایت کا کردار غیر مناسب ہے۔
انتخابات کے لئے بات چیت، افہام وتفہیم یا اتفاق رائے پیدا کرنے کاعمل سیاسی جماعتوں کا کلی دائرہ کارہے جسے وہ برسوں سے بخوبی اور کامیابی سے ادا کرتی آرہی ہیں۔ اتفاق رائے سے اجلاس نے اس معاملے کو اسی دائرے میں رکھنے پر اتفاق کیا۔
اجلاس نے سپریم کورٹ کے مورخہ 19 اپریل کے فیصلے پر بھی غور کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈالتے ہوئے پھر حکم جاری کردیا کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رقم جاری کرے جو آئین میں دی گئی سکیم سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس آبزرویشن پر بھی افسوس کا اظہار کیاگیا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت اور اعتماد کھوچکے ہیں۔ یہ آبزوریشن پارلیمان اور وزیراعظم کی توہین کے مترادف اور قابل مذمت ہیں۔ سپریم کورٹ پارلیمان اور ایوان کی رائے کا احترام کرے۔ پارلیمان وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہے اور اُن پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔
اجلاس نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ سے متعلق سامنے آنے والی آڈیوز پر بھی غور کیا اور ان میں سامنے آنے والی گفتگو کے نکات کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔اس گفتگو سے سازش آشکار ہوگئی ہے۔
اجلاس نے قرار دیا کہ ان آڈیوز نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ فیصلے آئین کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی عناد، پسند وناپسند کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔
اجلاس نے آڈیوز کے اندر ملک میں مارشل لاء لگائے جانے کی غیرجمہوری سوچ کی بھی شدید مذمت کی۔
جسٹس (ر) ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم پہلے ہی 25 اپریل کو منظرعام پرآنے والی آڈیو سے سامنے آنے والی گفتگو کو تسلیم کرچکے ہیں۔ جس کے بعدکوئی شک نہیں رہتا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ایک منتخب وزیراعظم اور منتخب جمہوری اتحادی آئینی حکومت کے خلاف سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک منتخب وزیراعظم کو توہین عدالت کی جعلی ، غیرآئینی وغیرقانونی کارروائی کے ذریعے عہدے سے ہٹانا ایک سنگین اورناقابل معافی جرم ہے۔
اجلاس نے قرار دیا کہ اِن آڈیوز کے سامنے آنے کے بعد تین اور آٹھ رُکنی بینچ کے متنازعہ فیصلوں کے پس پردہ اصل عوامل مزید واضح ہوکر سامنے آچکے ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمان کی قراردادوں پر عمل درآمد کیاجائے۔