انتخابات کیس: بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس کی سیاسی جماعتوں کو ہدایت
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں، سوال یہ ہے 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہوجائے گا؟۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اور پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل دے رہے ہیں۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق کیس میں عدالت عظمیٰ نے سيکريٹری دفاع اور سيکريٹری خزانہ کو طلب کر رکھا ہے، سياسی جماعتوں کے وکلاء کی جانب سے عدالتی بائيکاٹ کے اعلان کا امکان ہے، کارروائی مکمل ہونے پر آج مختصر حکم نامہ بھی سنايا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی ہم کارروائی کا حصہ ہیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان استعمال کی گئی۔
جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے۔ اکرم شیخ بولے کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی ان کا اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب، کے پی انتخابات:سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کا فیصلہ جاری کر دیا
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ جی ہاں حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔ جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر بھی تحفظات ہیں۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کررہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں تو ہمارے سامنے دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر تو آپ نے اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، عدالت نے پنجاب کیلئے صدر اور کے پی کیلئے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے درخواست دائر ہونے تک تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988ء میں بھی عدالتی حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لیکر حکم جاری کرتی ہے۔
مزید جانیے: عدالت مطمئن ہوگئی توالیکشن ملتوی ہوسکتےہیں، جسٹس(ر)شائق عثمانی
جسٹس اعجاز الاحسن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس حکمنامے کا ذکر کررہے ہیں اس پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ جسٹس اعجاز نے مزید کہا کہ عدالتی حکم پر عمل کرنا الیکشن کمیشن پر لازم تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہوجائیں گی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکمنامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، 2 ججز نے پہلے ہی دن درخواستیں خارج کردی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔
ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی 5 ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے، جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریتی رائے کس کی ہے؟، حل یہ ہے کہ جنھوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ بینچ سے الگ ہوجائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نکتہ نوٹ کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جاسکتا، عدالتی حکم نظرثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکلر پر کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں کچھ انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184 تین کے مقدمات پر سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، سرکلر میں لکھا ہے کہ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ 184 تین کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ب بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں ہے کہ مناسب ہوگا 184 تین کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلے میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا مزید کہنا ہے کہ عوامی مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں نہ کہ سماعت مؤخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184 تین کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں؟، اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹیگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے مؤخر کریں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی ہوئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کیلئے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے مزید کہا کہ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184 تین کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟، 184 تین کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقۂ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ پہلے طے تو کرلیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا، فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟، جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کئے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا تھا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟، عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 دن کے دوران میں نے سینیر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، تین دو اور چار تین کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک 2 رکنی اقلیت نے دیا، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہوسکتا ہے، سماعت کے بعد کئے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہوجاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔
حکومت کی درخواستیں
وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کردی ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بینچ پر اعتراض بھی اٹھایا۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے فواد چوہدری کی ریڈ زون کھلوانے کی استدعا مسترد کردی
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کیس میں سوموٹو لینے کا نوٹ لکھ کر ذہن واضح کرچکے، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے مرحلے میں سماعت سے بھی معذرت کرچکے۔
خیال رہے کہ حکمراں اتحاد ملک بھر میں ایک ہی روز الیکشن پر اصرار کر رہا ہے، فل کورٹ نہ بننے پر حکومتی اتحاد بائيکاٹ کی دھمکی بھی دے چکا ہے۔
فاروق ایچ نائیک
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس سے مودبانہ درخواست ہے ہمیں پہلے سنا جائے، یہ کیس ایس ایم سی ون اور 2023ء کا تسلسل ہے، 30 اپریل والے کیس میں تینوں پارٹیز کو سنا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سنا جائے کیونکہ ہم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں، قابل سماعت ہونے سے پہلے بحث ہو پھر میرٹس پر آئیں، پورے انصاف کیلئے سب کو سنا جائے۔
ترجمان سپریم کورٹ کی چیف جسٹس سے منسوب ریمارکس پر وضاحت
مسلم لیگ ن کے رہنماء محسن شاہنواز رانجھا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی ہے کہ 3 رکنی بینچ مقدمہ کی سماعت سے اجتناب کرے، ججز ایک کے بعد ایک کرکے خود کو علیحدہ کرتے نظر آرہے ہیں، انتی ٹوٹ پھوٹ کسی بھی بینچ میں ماضی میں نظر نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گھر کو بچانے کیلئے سب بڑوں کو مل بیٹھ جانا چاہئے، عوام دیکھ رہے ہیں کہ لاڈلہ کون ہے، سسٹم کو بٹھوا کر الیکشن نہیں جتوایا جاسکتا۔
دوسری جانب وکلاء کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر ججز سے اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہے۔ وکلاء مختلف بار ایسوسی ایشنز کی کال پر جمع ہوئے۔اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔پولیس کے ساتھ رینجرز اہلکاربھی تعینات ہیں۔