متنازعہ چیزوں کی ہی سب سے زیادہ تشہیر ہوتی ہے، شیما کرمانی
نامور سماجی کارکن شیما کرمانی نےعورت مارچ کے حوالے سے کہا کہ ہم نے تو کبھی کوئی تنازع نہیں کھڑا کیا، ہم نے توصرف خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
نامور سماجی کارکن اور پرفارمر شیما کرمانی نے عورت مارچ کے حوالے سے سما ڈیجیٹل سے خصوصی بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کا ایک مخصوص طبقہ ہے جو بااختیار ہے۔ خواتین کو خود مختاری دینے کے لئے ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف خواتین ہی نہیں غیرمسلم کمیونٹی ، ٹرانس جینڈر کا شمار بھی معاشرے کے پسماندہ طبقے سے ہے۔ ایک بڑی تعداد ہے عورتوں کی جو کہ پاکستانی مرد سے تششدد کو برداشت کرتی ہے۔ تھپڑ کھانا تو ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے مگر یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ جب کوئی آپ پر ہاتھ اٹھائے ، اس عمل سے آپ کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔یہ ایک طویل سفر ہے ، آئے دن خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ شیما کا کہنا تھا کہ یہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ خواتین پر جنسی زیادتی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔
عورت مارچ کا پیغام روایتی نہیں :
شیما کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کا پیغام روایتی نہیں ہے ۔ تاہم اب تبدیلی آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ہم عورت مارچ 8 کے بجائے 12 مارچ کو منائیں گے۔ 12 مارچ کو عورت مارچ منانے کے مقصد یہ ہے کہ ہم ان خواتین کے لئے یہ مارچ کر رہے ہیں کہ جن کے ساتھ ہم سارا سال آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ وہ خواتین دیہاڑی پیشہ ہیں اس وقت غربت کا یہ عالم ہے کہ ان خواتین نے مطالبہ کیا کہ وہ 8 مارچ کو کام کریں گی اور اتوار کے روز عورت مارچ کا حصہ بن سکیں گی۔
2023 عورت مارچ کی ترجیحات
اس عورت مارچ کا نعرہ ہی بھوک، غربت اور غصہ ہے ۔ کیوں کہ ہمارے اندر غصہ ہے کہ ہماری ریاست ہمیں سیکیورٹی نہیں دیتی۔ کیا عورتیں انسان نہیں ؟؟ کیا ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ؟؟ یہی وہ غصہ ہے اور اسی غسے کو لیکر ہم مارچ کریں گے ۔
سوال : عورت مارچ متنازعہ کیوں ہوجاتا ہے ؟؟
اس سوال کے جواب میں شیما کرمانی نے کہا کہ متنازعہ ہوجانے ہر کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کوئی بھی چیز متنازعہ ہوتی ہے اسکی اتنی ہی تشہیر کی جاتی ہے۔ شیما کا کہنا تھا کہ ہم تو کبھی کوئی چیز متنازعہ نہیں بنائی۔ ہم تو اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو پر امن ہونے کی بات کرتے ہیں ہم بنا ہتھیار کے کھڑے ہوتے ہیں کہ اپنے حقوق کا اظہار کرنے کے لئے۔ ہمیں ہمارا آئینی حق نہیں ملتا۔ پاکستانی عورت کواب بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے۔ اسے اتنا حق نہیں کہ وہ وراثت میں اسکا حق اسے ملے ،عورت کو اسی مرضی کی شادی کا حق نہیں ۔ یا یہ کہ شادی کرنی بھی ہے یا نہیں ۔ یا شادی کس سے کرنی ہے ؟؟ بچے کتنے پیدا کرنے ہیں ؟؟ یہ سارے ہم خواتین کے بنیادی حقوق ہے ۔
شیما نے میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرا ہی جسم ہے ناں کہ میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ میرے جسم کو ہاتھ لگائے۔ اس حوالے سے تو ریاست کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کل کو یہ کوئی کہہ دے گا کہ بی بی آپ نے ایسے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو آپ کے ساتھ تو زیادتی ہوگی ۔ شیما نے سوال اٹھایا کہ کیوں ایسا شخص مجرم ہوگا یا پھر میں کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو۔ ہمیں اس سوچ پر کام کرنا ہے اور اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔