ازخود نوٹس لینا میرا دائر اختیار ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
** پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا ( کے پی) میں عام انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔**
عدالت نے اٹارنی جنرل، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، پی ڈی ایم سمیت سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کے دوسرے روز آج بروز جمعہ 24 فروری کو سماعت کی۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔
سماعت کا آغاز
آج سماعت کا آغاز ہوا تو پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ حکم کی کاپی ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج اکٹھے ہونے کا مقصد تھا سب کو علم ہو جائے، مختلف فریقین کے وکلاء کو عدالت میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بینچ پر اعتراض کیا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں بھی نوٹس نہیں ملا، درخواست ہے کہ سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، بینچ میں شامل ہمیں 2 ججز پر اعتراض ہے۔ دونوں ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے۔
اس دوران جمعیت علمائے اسلام ف، مسلم لیگ نواز اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی 2 ججز پر اعتراض کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج پہلے سب کی حاضری لگائیں گے، پیر کے روز سب کو سنیں گے، سپریم کورٹ بار کسی اور وکیل کے ذریعے اپنی نمائندگی عدالت میں کرے۔ صدر کی جانب سے ان کے سیکریٹری عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم نے سب سیاسی پارٹیوں کو نوٹس جاری کیے، سب موجود ہیں۔ عدالت میں گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے پیش ہوئے ہیں۔
کمرہ عدالت میں سماعت کے دوران فاروق نائیک نے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا مشترکا بیان عدالت میں پڑھا کر سنایا۔ فاروق ایچ نائیک نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز، جسٹس مظاہر بینچ سے الگ ہوجائیں، کمرہ عدالت میں مشترکا بیان پڑھتے ہوئے پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز ن لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا، اس لیے دونوں بینچ سے الگ ہوجائیں، فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر بینچ سے الگ ہوجائیں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ عدالت کے ازخود نوٹس کے 2 پیراگراف پڑھنا چاہتا ہوں، مسٹر ڈوگر کے کیس میں از خود نوٹس لینے کا کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان الارمنگ ہے، اس کیس میں عوام عدالت کے سامنے نہیں بینچ کے اندر سے معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی تجویز آگئی ہے۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ معاملہ فل کورٹ سنے؟۔ فاروق ایچ نائیک نے چیف جسٹس سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ یہ از خود نوٹس 2ممبر بینچ کی سفارش پر لیا گیا، سوال یہ ہے کیا اس طرح از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے؟۔ واضح کرتا ہوں اس میں کوئی ذاتی وجوہات نہیں ہیں۔
جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے جواباً کہا کہ میں سمجھتا ہوں کیوں نہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، جس پر پی پی وکیل کا کہنا تھا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، پی پی وکیل کے جواب پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پہلے کیس میں قابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، جس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اس کیس میں عوام عدالت کے سامنے نہیں آئی۔ انصاف کیلئے بہتر ہوگا یہ معزز ججز بینچ میں نہ بیٹھیں۔
سماعت آگے بڑھی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں، یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟ 90 روز میں الیکشن کا مسئلہ پارلیمان میں حل کیوں نہیں کرتے؟ ، اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لے لوں گا۔
چیف جسٹس نے فریق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاروق نائیک ازخود نوٹس سے پہلے بھی ہمارے سامنے درخواستیں آچکی تھیں، صدر کے تاریخ دینے سمیت کئی واقعات کو دیکھا، محسوس ہوا آئین خود اس عدالت کا دروازہ کھٹکٹھا رہا ہے، ہم آپ کو پیر کے روز اس پر مزید سنیں گے، پہلی چیز یہ کہ فاروق نائیک نے جو حکم پڑھا وہ 16فروری کا ہے، جب کہ اس معاملے پر از خود نوٹس 22 فروری کو لیا گیا، اسی دوران بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے، ایک صدر کی جانب سے تاریخ دینا اور دوسرا اسپیکرز کی درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کیلئے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس بار آئین نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
سماعت میں اجازت ملنے پر ن لیگی وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ سیاسی لیڈروں کو عدلیہ کو بدنام کرنے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے، یہ بہت ہی سنجیدہ ایشو ہے، جس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ معاملے کا قابل سماعت ہونا سب سے اہم ایشو ہے، سب سے پہلے بینچ کی تشکیل کا معاملہ ہے،
اس دوران بینچ کے اندر سے معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھنے کی تجویز آگئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ از خود نوٹس کو فل کورٹ سنے تو زیادہ بہتر نہیں ہوگا،
فل کورٹ کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ از خود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، عدالت درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے ازخود نوٹس کی سماعت پیر 27 فروری دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
بار کونسل کا بینچ پر اعتراض
گزشتہ روز 23 فروری کو ازخود نوٹس کی پہلی سماعت کے موقع پر پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
سماعت کے دوران ہی بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز اور جسٹس طارق مسعود کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ دونوں ججز سپریم کورٹ کے سینیر ترین ججز ہیں، ججز کو شامل نہ کرنے سے کیس میں غیر جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔
بار کونسل نے امید ظاہر کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا کہ امید ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی رضا کاررانہ طور پر بینچ سے الگ ہوجائیں گے۔
3 سوالات
قبل ازیں از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا جائے گا،
- پہلا یہ کہ اسمبلی تحلیل ہونے پرالیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟
- دوسرا ، انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اخیتار کب اور کیسےاستعمال کرنا ہے؟
- تیسرا اور اہم سوال وفاق اور صوبوں کے عام انتخابات کے حوالے سے ذمہ داری کیا ہے؟۔
ن لیگ کا ججز پر اعتراض
دوسری جانب وفاقی حکومت نے 9 رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے دونوں ججز ہمارے تحفظات کی وجہ سے بینچ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔
علاوہ ازیں پاکستان بار کونسل نے بھی از خود نوٹس کیس میں 9 رکنی بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اس معاملے پر فُل کورٹ بینچ بننا چاہیے تھا۔
نوٹ : ازخود نوٹس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔
گزشتہ سماعت
گزشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل ہوئیں؟
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحفظات نوٹ کرلئے ہیں، آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی، انتخابات وقت پر چاہتے ہیں، سنگین حالات میں وقت بڑھ سکتا ہے۔
صدر کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان
واضح رہے کہ رواں ماہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔
ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔
خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
صدر عارف علوی نے لکھا تھا کہ آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے، الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں، اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر
سپریم کورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف آج بروز جمعرات 23 فروری کو ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثوں میں حالیہ دنوں میں 3 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، وہ مس کنڈکٹ، ناجائز اثاثے بنانے کے مرتکت ہوئے ہیں، فرنٹ مین کے ذریعے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بڑے عہدوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ بھی کراتے رہے۔
ریفرنس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے ناجائز اثاثے، آڈیو لیک جسیے معاملات کی تحقیقات کی جائیں، سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کرنے والے میاں داود ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنس جوڈیشل کونسل میں فائل کیا ہے، ریفرنس میں جسٹس مظاہر کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آمدن سے زیادہ جائیدادیں جسٹس مظاہر نقوی کی ہیں، ان کی مبینہ آڈیو بھی آچکی ہے، سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، اگر مس کنڈکٹ میں آتا ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کرے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے اثاثوں پر تین بار تبدیلی کروائی، ان کے کچھ ایسے اثاثے ہیں جن کو کھبی ریکارڈ میں نہیں لایا گیا، جج مظاہر نقوی نے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے پراپرٹی بنائی ہے، ان کے دو بیٹے لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں، ان کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زاہد رفیق فرنٹ مین وکلاء کے حلقوں میں مشہور ہیں کہ وہ اثرو رسوخ سے پیسے اکھٹے کرتے ہیں، ایک اکاونٹ کے ذریعے جج کی بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کئے گئے، سپریم جوڈیشل کونسل جج سے تحقیقات کرے۔