جیل بھرو تحریک، گرفتار نوجوانوں کا مستقبل کس طرح تاریک ہوسکتا ہے ؟

ایف آئی آر ہونے کے بعد پولیس آپ کو کریکٹر سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتی۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوگیا ہے ، پارٹی میں شامل کارکن اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں ۔

تحریک انصاف نے بدھ کے روز لاہور چئیرنگ کراس سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کردیا ہے ۔ قانون نافذ کرنےو الے اداروں نے مال روڈ پر کچھ عرصہ سے دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے ، اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے ۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ کیونکہ مال روڈ پر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے اس لیے اس دفعہ کے تحت پولیس کے پاس انہیں گرفتار کرنے کا جواز موجودہے ۔

پشاور: تحریک انصاف کی جیل بھروتحریک بغیر کسی گرفتاری کے ختم

دفعہ 144 کے تحت گرفتاری، ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے اور عدالت میں جرم ثابت ہونے سے مستقبل میں نقصان ہو سکتا ہے۔ ’دفعہ 144 کسی بھی جگہ آپ کو غیر قانونی اجتماعی طور پر جانا جاتا ہے۔ روکتی ہے اور اس کی سزا دو سال تک ہو سکتی ہے۔

ایک ایسا اجتماع جس سے قانون کے نفاذ کو نقصان ہوسکتا ہے ، یا وہ ماحول ک وخراب کرسکتا ہے اس میں سزا تو دو سال ہے۔ لیکن پولیس ایف ٓئی آر ہونے کے بعد پولیس آپ کو کریکٹر سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتی ،

جب آپ کسی سرکاری نوکری کے حصول کے لےی جاتے ہیں تو آپ کو ایک حلف نامہ بھر کردینا ہوتا ہے کہ جس میں آپ سے مختلف سوال پوچھے جاتے ہیں اور آپ کو ان کا جواب دینا ہوتا ہے ، جیسے کہ ٓپ کے خلاف کوئی کریمنل کیس کسی عدالت میں تو نہیں چل رہا ہے ۔ یا اپ کے خلاف کوئی ایف آئی آر تو درج نہیں ہوئی ہے ؟

جیل بھرو تحریک؛ گرفتار پی ٹی رہنماؤں کو 90 روز تک جیل میں رکھنے کی تیاریاں

ایسے میں اگر آپ کے خلاف ایساکچھ ہوا تھا تو اس کی پوری تفصیلات اس فارم میں بتانی پڑتی ہے ، اگر آپ یہ معلومات چھپالیتے ہیں تو وہ بعد میں سامنے آ ہی جاتی ہیں جس سے آپ کی نوکری چلی جاتی ہے ۔

آن لائن مجرمانہ ریکارڈ کس طرح تمام ریکارڈ محفوظ رکھتا ہے ؟

محکمہ پولیس میں ملزمان اور مجرمان سمیت لوگوں کے کریمنل ریکارڈز رکھا جاتا ہے جس کے لیے باقاعدہ ایک سیل بنا ہوا ہے ۔ یہاں پر شناختی کارڈ نمبردیا جائے تو اپ کا پورا کریمنل ریکارڈ ایک پل میں سامنے آجاتا ہے ۔ کسی بھی طرح کی دفعات لگی ہوں سب آپ کے ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہیں ۔ اس کا نقصان نوجوان کو اس کے مستبقل خراب ہونے کی صورت میں ہوگا۔

عدالتوں میں کیس چلیں اور وہاں سے سزا بھی ہوسکتی ہے ۔ یعنی قانون کی خلاف ورزی پر قانون حرکت میں تو آئیگا ۔ اگر آپ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو اس میں آپ کو ایک کلیئرنس سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوتا ہے جو پولیس فراہم کرتی ہے ، اگر آپ کا کریمنل ریکارڈ بنا ہو اہے تو پولیس کسی بھی صورت کلیئرنس سرٹیفیکٹ نہیں دے گی ۔

جیل بھرو تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی فلاپ ہوگئی ،راناثناءاللہ

اگر آپ بری بھی ہوجاتے ہیں تب بھی آپ کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہوئی ہوتی ہے جس کا ریکارڈ بنا اور اس کا نقصان مستقبل میں ہوتا ہی ہے ۔

پاکستان میں جیل بھرو تحریک کی تاریخ

جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) نے اپنے احتجاج کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اور زیادہ موثر بنانے کے لیے گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا تو اس پر عمل کرنے کے لیے کارکنان نے ملک بھر میں گرفتاریاں دیں ۔

باقی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی اس میں پیش پیش رہی ۔ اس تحریک میں تقریباََ روزانہ کی بنیادوں پر گرفتاریاں ہونے لگیں ۔ حکومت کی اس وقت کوشش ہوتی تھی کہ ان کے گھروں سے یا کسی دوسری جگہ سے گرفتار کرلیا جائے تاکہ وہ خود گرفتاری نہ دے سکیں ۔ سیاسی کارکن اکھٹے ہوتے اور اپنی گرفتاریاں دے دیتے ۔

جیل بھرو تحریک کی شروعات عمران خان کی گرفتاری سے ہونی چاہیے، مریم اورنگزیب

جہاں لیڈر اور کارکن ایم آر ڈی کی اس تحریک میں شامل رہے وہیں وکلا بھی ان کی رہائی کے لیے پیش پیش رہے اور فوجی دور میں قائم خصوصی اور سمری فوجی عدالتوں میں مقدمات لڑتے رہے۔

Tabool ads will show in this div