رحمت و مغفرت کی رات:شب برأت


مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی
صدرآل انڈیا تنظیم علماء حق
تا حد نظر پھیلے ہوے خالق کائنات کے اس وسیع ترین کارخانے میں کوئی بھی چیز بے کار اور بے فائدہ نہیں۔ شجر و حجر، چرند و پرند، دریا و صحرا، خشکی اور تری، سردی و گرمی سبھی میں خدائی حکمتوں اور مصلحتوں کا ایک جہان مضمر ہے۔ اس کے صحیح ادرا ک و عرفان اور ان کے اسرا و رموز سے آشنائی کے لیے ذہن رسا اور عقل سلیم کی ضروت ہے۔ اللہ نے ماہ و سال کی آمد اور اس کے الٹ پھیر میں بھی ہم انسانوں کے لیے خیر و برکت پر مبنی بہت سی خصوصیات کا خزانہ ودیعت فرمادیا ہے۔ یوں تو بارہ مہینوں کی احادیث میں کوئی نہ کوئی فضیلت وارد ہوئی ہے، لیکن اس میں بھی شعبان اور رمضان کو بقیہ مہینوں پر جو فضیلت حاصل ہے، وہ کسی اہل ایمان پر مخفی نہیں۔ جتنے دینی احکامات اور ہدایات ہیں، وہ انھی مہینوں میں خدا کی طرف سے دنیاے انسانیت پر نازل کی گئی ہیں۔ شعبان دوسرے اسلامی مہینوں پر اس لیے فوقیت رکھتا ہے کہ اس مہینے میں ایک ایسی رات آتی ہے جو انسانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا خزینہ اور انسانی فلاح و بہبود کا سر چشمہ ہو تی ہے۔

یوں توسارے اسلامی مہینے اپنے جلو میں انسانی معاشرے کی دینی اور دنیاوی ترقی کی سوغات لیے ہو تے ہیں۔ کوئی بھی صاحب ایمان ان مبار ک و مسعود مہینوں کو اخلاص و للیہیت کے جذبات اور عجز وانکساری کے تصورات کے ساتھ گزارے تو اس کے دل کی دنیا بدل سکتی ہے۔ لیکن ان اسلامی مہینوں میں شعبان المعظم کو رمضان کے سوا دوسرے مہینوں پر اس لیے برتری اور عظمت حاصل ہے کہ اس میں نیکیوں کی باد بہاری چلتی ہے۔ اس مہینے کا ہر لمحہ اور ہر پل باران رحمت کا نزول کر تا ہے۔ اور اس مہینے کی پندرہویں شب تو بطور خاص اس لیے امت محمدیہ کو دی گئی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی زندگی کا صحیح اور ٹھوس لائحہ عمل تیا ر کر لے۔ یہ رات کہنے کو رات ہے، لیکن یہ در اصل دن سے زیادہ اجلی، روشن اور چمک دار ہے، ہر طرف رحمت، برکت، مغفرت اور بخشش کا اجالا پھیلا ہو تا ہے۔ جدھر دیکھیے نور و نکہت میں ڈوبی ہوئی چادر تنی ہوئی نظر آئے گی۔ چودہویں تاریخ کی شام کا سورج غروب ہوتے ہی خدا تبار ک وتعالی عرش بریں سے آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور یہ ندا لگائی جاتی ہے کہ ہے کو ئی بخشش کا طلب گار، جس کو میں بخش دوں، ہے کوئی روزی کا خواست گار جس کے دامن مراد کو میں رزق سے بھر دوں۔ ہے کوئی پریشان حال جس کی کلفتوں او رمشقتو ں کا خاتمہ کردوں۔ ہے کوئی ضرورت مند جس کی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان فراہم کردوں۔ ہے کوئی روزگار کا خواہش مند، جسے میں باعزت روزگار سے لگادوں۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے مخاطب ہو کر یہی فرمایا تھا کہ اے عائشہ! جبرئیل امین تشریف لاے تھے اور وہ یوں گویا ہوے کہ آج کی رات شب برأت ہے اور اس رات میں اللہ تعالی قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر جہنمیوں کو دوزخ سے نجات کا پروانہ تھما دے گا۔ البتہ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہو، کسی سے بغض و عناد رکھا ہو، کسی سے قطع تعلق کیا ہو، جس نے ٹخنے سے نیچے کپڑے لٹکائے ہوں، ماں باپ کی نا فرمانی کا ارتکاب کیا ہو اور ہمیشہ شراب نوشی کا عادی رہا ہواللہ ان کی مغفرت نہیں کر تا۔


یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ ماہ شعبان کا چاند نظر آتے ہی دوسری مصروفیات سے کنارہ کش ہونے لگتے تھے۔ اور تلاوت،نوافل کے اہتمام اور ذکر واذکار میں غیر معمولی سرگرمی کا مظاہرہ کر تے تھے۔ اس مہینے کی فضیلت بیان کر تے ہوے آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رجب میرا مہینہ ہے، شعبان اللہ کا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے تمام انبیاء کرام پر میری فضیلت اور دوسرے مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کائنات پر اللہ کی فضیلت۔
انھی فضیلتوں کے پیش نظر شعبان کی آمد کے ساتھ ہی آپﷺ کی روزرہ کی عبادت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا تھا۔ اور رمضان کے استقبال، نیز رمضان کے روزوں کے اضافی بار کا اپنے کو متحمل بنانے کے لیے بکثرت روزہ رکھتے تھے۔ اس مہینے کی عظمت و فضیلت کا مرکزی نقطہ شب برأت ہے۔ یہ رات مغفرت اور بخشش کا پروانہ لیے ہو تی ہے۔ یہ رات ایسی با برکت، خوبیوں کا مجموعہ اور عنایات و نوازشات کا گل دستہ ہے جو انسانوں کو خدائی رحمت و معفرت کا مژدہ جاں فزا سناتی ہے۔ جوں ہی چودہویں کا سورج مغرب کی گود میں جاتا ہے، آسمان سے خدائی فیصلوں کے نزول کا حسین منظر آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس رات میں عباد ت وریاضت سے نفس کشی کے وسیع اثرات سے دل میں خدا سے لگاو اور تعلق کی قندیل روشن ہو جاتی ہے۔ افسردہ اور مایوس دلوں میں محبت و شوق کی نئی حرارت اور نیا سوزو گداز بیدار ہو جاتا ہے۔
اس رات کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ اسی رات کو سال بھر کے آئندہ پیش آنے والے واقعات اور حالات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ سال بھر میں جتنے احکامات پیش آنے ہیں ان سب کے حتمی فیصلے اور احکامات کو منظوری دے کر متعلقہ فرشتو ں کو ان امور کی انجام دہی پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی موت و حیات، ان کی روزی اور روزگار اور ان کی ضرورتوں کی ساری تفصیل اسی رات کو ترتیب دی جاتی ہے۔گویا پورے سال کا بجٹ اسی رات میں تیار ہو تا ہے اور پورے سال اسی بجٹ کے مطاق فیصلے ہو تے رہتے ہیں۔ مولانا غلام بنی کشمیری کے الفاظ ہیں۔


”موت و حیات، نکاح و طلاق، خوشی و غمی، امارت و غربت، عزت وذلت، عروج وزوال غرض یہ کہ بندوں کی قسمت سے متعلق تمام امور طے کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں، جماعتیں، اور تجارتی ادارے ہر سال آمد و خرچ کا حساب ک رکے نفع و نقصان کا اوسط نکالتے ہیں۔ سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر تے ہیں۔ مولاے کریم بھی ہر سال شب برأت کو اپنے بندوں کا بجٹ بناتا ہے، شب برأت گویا خدائی بجٹ کی رات ہے۔“
اسلاف کرام سے اس رات کو سواے عبادت و ریاضت کے کچھ اور ثابت نہیں۔ لیکن آج کی موجودہ نسل نے اس رات کو بھی لہو و لعب اور خرافات و بدعات کی رات بنا دیا ہے۔مسلم معاشرے نے اپنی نا اہلی اور نا قدری کا ثبوت دیتے ہوے اس قیمتی رات کی قدر و منزلت پر ناقدری کا لبادہ ڈال دیا ہے۔ جو لوگ مغربی تہذیب کے گرویدہ ہوتے ہیں، اور جو مغربی تقلید کے اندھے مقلد اور غلام ہوتے ہیں۔، ان کی رسم ورواج کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش نے ا س کے تقدس کی پامالی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے۔اس رات کی فضیلت اور دینی تقدس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس رات میں ہمارے رگ و پے میں عبادت کی تیزی اور اور ذکر وفکر کی چستی دوڑتی، خدا کی یاد میں دل مضطرب اور بے چین ہو کر دھڑکتا، آنکوں سے ندامت کے آنسو ٹپکتے، اور اپنے مسجود حقیقی کی بارگا ہ میں سجدہ ریزی کا فر ض ادا کر تے ہوے اپنے گناہوں اور اپنی خطاوں پر شرمندہ ہوتے، لیکن ہم اس رات کو بھی بیہودہ اورغیر اسلامی روایات کی نذ ر کر دیتے ہیں۔اس رات میں ہمارے جوان اجتماع کی شکل اختیار کر کے اور ٹولیاں بناکر جشن و تہوار کا سا ماحول تیار کر تے ہیں، آتش بازیاں کر تے ہیں اور اس طرح زوردار پٹاخے چھوڑ تے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔یہ رات اپنے محاسبہ اور ذاتی اعمال پر نظر ثانی کی رات تھی اور اپنے سال بھر کے پروگرام کوازسر نو منظم کر نے اور اپنی دینی زندگی کو دینی خطوط پر ڈھالنے کی تھی، لیکن ہم شہرت کی طلب اور سماج میں اپنی نام نہادسخاوت کاسکہ جمانے کے لیے غیر شرعی رسم و رواج کی بر آری میں اسراف اور فضول خرچی میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اللہ خیرکرے۔ اس رات میں سلف صالحین سے صرف عبادت، قبرستان کی زیارت اور ذکر و اذکار ثابت ہے، چراغاں کرنا اور مزیدار اور ذائقے دار پکوان تیار کرنے اورحلوے بنانے کی روایت کہیں سے ثابت نہیں۔ ہمارا یہ خود ساختہ طرز عمل اہل سنت والجماعت کے طریقے سے میل نہیں کھاتا۔اس رات کو گھر کے اطراف کی صفائی ستھرائی پر خا ص دھیان دیا جاتا ہے اور اگر بتیاں سلگائی جاتی ہیں اس خیال میں کہ اس رات کو سعید روحیں اپنی قبروں سے نکل کر انسانی آبادی کا رخ کر تی ہیں۔یہ سارے اعمال رسم محض کے دائرے میں آتے ہیں، اور شرعی اصولوں کے منافی ہیں۔
آج کی رات پٹاخے چھوڑنے کی نہیں، دلوں میں یاد خداوندی کا چر اغ روشن کر نے کی رات ہے۔اجتماعیت کی شکل بناکر گلی گلی چکر کاٹنے اور بازاروں اور قبرستانوں میں شور شرابے کی رات نہیں، تنہائی میں شرمندگی اور ندامت کے آنسوو ں کے ساتھ گڑ گڑانے اورمناجات کی رات ہے۔شب برأت صرف جاگنے اور چاے نوشی کی رات نہیں، بلکہ خداے غفار کے سامنے مغفرت کی گہار لگانے اورقاضی الحاجات کے حضور میں اپنی تمام دینی اور دنیاوی حاجتوں کی تفصیل رکھنے کی رات ہے۔ اس رات کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔ اس میں دعائیں مانگیے، اپنی ذات کے لیے، اپنے ملک اور پورے عالم اسلام کی سلامتی کے لیے، پورے عالم میں اسلام کے بول بالا کے لیے۔ اس رات کے کسی گوشے میں ان معصوم و مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے دعائیں کیجیے جن کی زندگی کے روزو شب مصیبت اور تباہی و بربادی سے عبارت بن گئے ہیں، ان مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے خداسے دعائیں مانگیں، جو محض شبہات کی بنیاد پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید و بندکی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان ماؤوں کے دل کی تسلی کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائیے، جن کے جگر گوشوں کو جھوٹے الزاما ت میں پھنساکر ان کی آنکھوں میں عمر بھر کے لیے آنسو ڈال دیا ہے۔ اس رات کوغنیمت جانتے ہوے مدار س، مساجد، مقابر اور خانقاہوں کی حفاظت کی دعائیں مانگیے۔ سرزمین معراج اور مسجد اقصی کی بازیابی کی دعا مانگنے کی یہی رات ہے، بابری مسجد کی تعمیر نو کا مطالبہ آج ہی کی رات سب سے بڑے حاکم کے سامنے رکھیے، اور ہو سکے تو ان الفاظ کی وساطت سے بھی دعا مانگ کر دیکھیے، جن الفاظ میں اس رات سجدے میں آپﷺ نے یہ دعا مانگی تھی کہ: ”یا اللہ میں تیری سزا وگرفت سے تیری معافی کی پناہ چاہتا ہوں اور تیرے غصے سے تیری خوش نودی و رضا کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تو رفیع المرتبت اور عالی شان والا ہے۔ میں تو تیری پوری تعریف بھی نہیں کر سکتا۔“کیوں کہ یہ رات مغفرت اور مقبولیت کی رات ہے۔

خوش نصیب ہے وہ مسلمان جو اس زریں شب کو اسلامی روح کے منافی تمام اعمال سے اجتناب کر تے ہوے، تلاوت قرآ.، نوافل اور ذکر وفکر سے آبا درکھے۔ اور خلوت میں عبادت کے نور سے اپنے باطن کی تاریکیوں کو منور کر نے کی کوشش کرے۔ اللہ ہمیں ماہ شعبان کے ساتھ اس رات کی کما حقہ قدر کر نے کی توفیق مرحمت فرماے۔

مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی