ایران جوہری معاہدے کی چند شرائط سے دستبردار

ایران نے سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بعض شرائط سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مناسبت سے تہران حکومت نے ڈیل کے

دستخط کنندگان کو باضابطہ طور مطلع کر دیا ہے۔

 

WEB DESK

ايرانی حکومت نے اپنی جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کے ليے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے شدہ معاہدے کی بعض شرائط یا ذمہ داریوں سے جزوی دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے ميں ایران کی جانب سے ڈیل پر دستخط کرنے والے ممالک برطانيہ، چين، فرانس، جرمنی اور يورپی يونين کو خطوط لکھ کر باضابطہ طور پر بدھ آٹھ مئی کو مطلع کیا ہے۔

ایرانی حکومتی فیصلے کے مطابق افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بڑھانے پر عائد پابندی کو ختم کر دیا جائے گا۔ ایرانی فیصلے کے مطابق بھاری پانی کا بھی ذخیرہ بڑھایا جائے کیونکہ یہ بعض ری ایکٹروں میں استعمال کیا جائے گا تا کہ جوہری خلیوں کے ٹکراؤ کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

تہران حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ جوہری ڈیل کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلے گی اور اس کی بنیادی شرائط احترام جاری رکھا جائے گا۔ ایرانی حکومت بعض ایسی جوہری سرگرمیوں کو شروع کرنے کی خواہش رکھتی ہے جو اُس نے رضاکارانہ طور پر معطل کر رکھی تھیں۔روحانی نے مزید کہا کہ امریکی علیحدگی سے پہلے یہ سلسلہ ہوتا تھا کہ جب ایران میں یورونیم کی افزودگی تین سو کلوگرام تک پہنچتی تھی تو اسے دو ملکوں کو فروخت کیا جاتا تھا جو اب نہیں ہوگا اور نہ ہی ہیوی واٹر کی فروخت ہوگی.
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ صرف 60 دن کے لئے ہے اور اگر اسی مدت میں ایران اپنے معاشی ثمرات حاصل کرے بالخصوص بینکاری پابندیاں ختم ہوئیں تو ہم اپنی پہلی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے.
ایرانی صدر نے کہا کہ اگر ان 60 دنوں میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا تو ایران مزید دو اور فیصلے کرے گا جس کے مطابق، یورونیم کی افزودگی میں کوئی حد نہیں ہوگی اور اراک ہیوی واٹر ریکٹر جس کی گروپ 1+5 کے ساتھ مل کر تعمیرنو ہونی تھی، اب اس منصوبے کو ایران خود مکمل کرے گا.
انہوں نے اس موقع پر کہا کہ جوہری معاہدہ ایران کا قومی اور اسٹریٹجک فیصلہ تھا جس پر ملکی نظام نے اتفاق کیا تھا.
ڈاکٹر روحانی نے مزید کہا کہ گزشتہ سال اسی دن امریکہ غیرقانونی طور پر جوہری معاہدے سے نکل گیا اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی کی.
انہوں نے کہا کہ ایران جوہری معاہدہ خطے کے لئے فائدہ مند اور دشمنوں کے لئے نقصان دہ تھا. ایرانی عوام نے بھی جوہری معاہدے سے پہلے اور بعد دو مرتبہ انتخابات میں اس معاہدے کی توثیق کی.
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ آج قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، امریکی خلاف ورزی کے جواب میں جوہری معاہدے کی شق نمبر 36 کے مطابق اس عالمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں کے بعض حصوں پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے. **ہم نے نئی زبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ ہم نے آج نئی زبان سے مذاکرات کا آغاز کرکے مذاکرات کی میز کو چھوڑ نہیں کئے۔ ہم آپ کے ساتھ قانونی زبان سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے کل دوستانہ اور سیاسی زبان کے ساتھ گفتگو کی ہیں مگر ایران کا حق ہے کہ اپنے عوام کے مفادات کے لئے سیاسی اور قانونی زبان کا استعمال کرے.
**جس طرح ہم نے راستہ انتخاب کیا، جنگ کا راستہ نہیں ہے
روحانی نے اس بات پر زور دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک امن پسند ملک ہے اور آج ہم نے جس طرح راستے کا انتخاب کیا جنگ کا راستہ نہیں بلکہ سفارتکاری کا راستہ ہے.
انہوں نے کہا کہ ہم ایرانی قوم کو کہتے ہیں کہ آج ہمارے راستے دنیا کے ساتھ تنازعات اور جنگ کا راستہ نہیں، پھر سفارتکاری راستہ ہے. ایک نئی زبان اور رویے کے ساتھ سفارتکاری ہے۔ ہم ایک بار پھر قانون اور منطق کی مبنی پر بات کرتے ہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پہلے دن سے اس بات پر زور دیا کہ جوہری معاہدہ ایک عالمی سمجھوتہ تھا اور امریکہ کو اس معاہدے کے خاتمے کی اجازت نہیں دیں گے.یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گزشتہ رات دورہ روس کے موقع پر کہا کہ ایران، جوہری معاہدے سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا.
**جوہری معاہدے پر ایران کی شفاف کارکردگی سے متعلق عالمی جوہری ادارے کی تصدیق
جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی عالمی جوہری توانائی ادارہ اپنی 14 رپورٹس میں اس معاہدے سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی شفاف کارکردگی کی تصدیق کرچکا ہے.
تاہم اعلی ایرانی سفارتکار اور جوہری مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے یہ خبردار کیا ہے کہ ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے والا ہے، امریکی رویے سے جوہری معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے اور آئے روز اس کے خاتمے کے امکانات بڑھنے لگے ہیں.
**ایران امن کا داعی
اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امن پسندی اور خطے اور دنیا میں سلامتی و استحکام ملکی پالیسی کا ایک اہم جز ہے.
خطے میں امریکہ اور بعض عرب ممالک کے حمایت یافتہ دہشتگردوں بالخصوص داعش کے خلاف ایران کے موثر اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تہران، علاقائی امن و استحکام کی بالادستی کے لئے مخلص ہے.
ایران کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایران نے ہرگز کسی جنگ میں پہل نہیں کیی بلکہ ایرانی عوام ہمیشہ امن پسند رہے ہیں مگر جب کوئی جنگ ان پر مسلط کردی گئی تو وہ اپنی سرزمین کا دفاع اچھی طرح جانتے ہیں.
اس تناظر میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف بھی کہہ چکے ہیں کہ اُن کی حکومت سن 2015 کی جوہری ڈیل کی شرائط کے منافی کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ ظریف کے مطابق ایرانی اقدامات ڈیل کے دائرہ کار میں رکھے جائیں گے کیونکہ اسلامی جمہوریہ نے اس ڈیل سے دستبرداری کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً ايک سال قبل اس ڈيل کی سالانہ توثیق نہ کرتے ہوئے يک طرفہ طور پر امریکی عليحدگی کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد واشنگٹن حکومت نے تہران کے خلاف انتہائی سخت اقتصادی پابندياں کا نفاذ کر دیا ہے۔

ایرانی حکومت نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا جب واشنگٹن حکومت نے ایک طیارہ بردار جنگی بحری جہاز یو ایس ایس ابراہم لنکن کو خطے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی جنگی بحری جہاز کی تعیناتی خطے میں کشیدگی اور تناؤ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت کے لیے ایک واضح اور سخت پیغام تصور کیا گیا ہے۔