AMN
بابری مسجد تنازعے سے متعلق ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے مسجد کو نماز کے لیے لازمی قرار نہیں دینے کے حوالے سے اپنے سابقہ حکم کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک وسیع تر آئینی بنچ کو بھیجنے کی درخواست مسترد کردی۔
ہندو تنظیمیں اس فیصلے کو اجودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کی سمت میں ایک قدم آگے بڑھنے سے تعبیر کررہی ہیں جب کہ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بابری مسجد کی حق ملکیت اور مسجد کو منہدم کرنے کی مجرمانہ سازش کے مقدمات کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ بابری مسجد معاملے پر سیاسی بیان بازی کا سلسلہ ایک بار پھرتیز ہو گیا ہے۔
دریں اثنا بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینیئر رکن اور وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اس فیصلے سے مسلمانوں کے موقف کو دھچکا پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آج کے فیصلے کا بابری مسجد کے اصل تنازعے کی اپیلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے خود ہی کہا ہے کہ اس کا حق ملکیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک خاص تناظر میں دی گئی رائے تھی۔‘
اس پیش رفت کے بعد بابری مسجد تنازعہ ایک نئے اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اس تنازعے کے دونوں پہلوؤں پر مقدمہ شروع ہوجائے گا۔ پہلا حق ملکیت کا ہے جس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ جب کہ دوسرا مجرمانہ معاملہ ہے جس پر لکھنؤ ہائی کورٹ میں بحث ہوگی۔ اس میں بی جے پی کے کئی سینیئر لیڈران بشمول لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہرجوشی، اوما بھارتی وغیرہ پر بابری مسجد کو منہدم کرنے کی ساز ش میں ملوث ہونے کا مقدمہ چل رہا ہے۔
جمرات کو سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا تھا کہ آیا سن 1994 کےاس فیصلے کو کہ ’نماز مسجد میں پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے‘ کو بڑی بینچ میں بھیجاجائے یا نہیں۔ مسلمانوں نے عدالت سے اسے بڑی بینچ میں بھیجنے کی درخواست دی تھی۔ عدالت عظمی کی تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے سے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ بابری مسجد کی حق ملکیت کے معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے اس معاملہ کو بڑی بینچ بھیجنے سے انکار کیا جب کہ جسٹس عبدالنذیر نے بڑی بنچ کو بھیجنے سے اتفاق کیا۔
عدالت نے کہا، ’’ 1994میں اسماعیل فاروقی معاملہ میں جو فیصلہ آیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ کہ ’مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا اہم جز نہیں‘ لینڈ ایکویزیشن کے حوالے سے تھا لہذا اُس تبصرہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اسماعیل فاروقی معاملہ کیا ہے؟
اجودھیا میں ہندو کارسیوکوں نے 6 دسمبر سن 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے 7 جنوری 1993ء کو آرڈیننس لا کر مسجد کی زمین کے پاس کی 67 ایکڑ زمین کو ایکوائر کر لیا۔ اس ایکویزیشن میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا، جہاں بابری مسجد موجود تھی اور جسے آج بابری مسجد۔ رام جنم بھومی احاطہ کہا جاتا ہے۔
حکومت کے اس فیصلہ کو اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اپنی عرضی میں کہا تھا کہ حکومت کسی مذہبی مقام کو ایکوائر نہیں کر سکتی۔ اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا مسجد کی زمین کو بھی حکومت اگر چاہے تو ایکوائرکر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سن 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسماعیل فارقی فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد اراضی سمیت 67 ایکڑ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم سنایا تھا۔