نئی دہلی:
پچھلی ۲۸ مئی کو کیرانہ میں ضمنی انتخابات کے دوران عین ووٹنگ کے دن زی نیوز نے کیرانہ سے برقعہ پوش مسلم عورتوں کی تصویریں دکھا کر سنسنی خیز طریقے سے برقعوں کو ’’طالبانی ‘‘بتایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ ’’دھیرے دھیرے بھارت کے مسلمانوں کو کٹر بنایا جارہا ہے‘‘۔سدھیر چودھری کی اینکر کی ہوئی اس رپورٹ میں بوڑھی برقعہ پوش مسلم عورتوں کوبار بار دکھا کر ان کے برقع کو ’’طالبانی برقعہ ‘‘ کہا گیا اور دعوی کیا گیا کہ علاقے کے مسلمان وہابیت سے متاثر ہیں اور وہاں کے مسلمان طالبان کے نظریے والے اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں۔ بار بار برقعہ پوش عورتوں کو دکھا کر بتایا گیا کہ ’’بھارت میں طالبانی سوچ درانداز کررہی ہے‘‘، ’’طالبانی برقعہ کا تاریخی ڈی این اے ٹسٹ‘‘ ، ’’دیکھئے ! کیرانہ میں طالبانی برقع کا کیا کام؟‘‘ ۔
اس سنسنی خیز رپورٹ کے ساتھ ساتھ مذکورہ چینل کی ویب سائٹ پراسی دن ایک مضمون بھی شائع ہوا جس کا عنوان ہے: ’’دھیرے دھیرے بھارت کے مسلمانوں کو کٹر بنایا جارہا ہے‘‘۔ اس مضمون میں کہا گیا کہ ’’ ہندوستانی مسلمانوں کو طالبانی بنایا جارہا ہے اور یہ کڑوا سچ ہے‘‘، ’’یہ ہندوستانی مسلمانوں کے ڈی این اے کو بدلنے کی کوشش ہے‘‘، ’’کیرانہ کے مسلمان فرقہ پرستی اور مذہب پر مبنی سیاست کی لیباریٹری بن گئے ہیں‘‘، ’’طالبانی سوچ افغانستان سے نکل کر پاکستان ہوتے ہوئے ہندوستان میں گھس پیٹھ کرچکی ہے‘‘۔
واضح طریقے سے یہ سب ہندوستانی مسلمانوں کو بدنام کرنے ، ان کے خلاف نفرت پھیلانے اور ایک ایسی کہانی کے ایجاد کرنے کی کوشش تھی جس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔اس قسم کی رپورٹنگ تعزیرات ہند کی دفعہ۲۹۵؍ اے (کسی قوم کے مذہبی اعتقادات کی اہانت کرکے اس کے خلاف نفرت پھیلانا) اور دفعہ ۵۰۵ (افواہیں پھیلانا)کے تحت قابل گرفت ہے۔ اسی طرح عین الیکشن کے دن چلایا جانے والا یہ پروگرام تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۷۱ ؍سی کے تحت بھی قابل گرفت ہے کیونکہ اس کا مقصد ووٹروں کی قطب بندی اور ان کوفرقہ وارانہ بنیادوں پر متاثر کرنا ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن نے اس سلسلے میں زی نیوز کے مینیجنگ ڈائرکٹر کو نوٹس جاری کرکے ہدایت دی ہے کہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ جواب دیں کہ کیسے کیرانہ کی عورتیں طالبانی ہوچکی ہیں، کب اور کیسے طالبانی سوچ کیرانہ پہنچی، کیا کیرانہ کی معمر عورتوں کا برقعہ وہی نہیں ہے جو علاقے کی عورتیں صدیوں سے پہنتی آ رہی ہیں اور کیا براڈ کاسٹ کی جانے والی یہ رپورٹ ووٹروں کو متاثر کرنے اور ان کی قطب بندی کی کوشش نہیں تھی۔ اگر زی نیوز کے مینجنگ ڈائرکٹر ان باتوں کا ثبوت کے ساتھ جواب نہ دے سکیں تو لکھ کر غیر مشروط معافی مانگیں اور بتائیں کہ رپورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے اور اس کو لکھنے والے اسٹاف کے خلاف کیا کارروائی کی گئی کیونکہ انہوں نے ہندوستانی شہریوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا اور فرقہ پرست اور مذہبی بنیادوں پر ان کو بدنام کیا۔ زی نیوز کو یہ تعہد بھی داخل کرناہے کہ مستقبل میں وہ اس طرح کی رپورٹوں کو نشر کرنے سے احتراز کرنے گا۔ نوٹس کا مثبت جواب نہ دینے کی صورت میں اقلیتی کمیشن مذکورہ چینل کے خلاف کارروائی کرے گا۔ چینل کو جواب دینے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔
اسی کے ساتھ صدر اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفرالاسلام خان الیکشن کمیشن اور نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی کو بھی خط لکھ کر مذکورہ چینل کے خلاف ایکشن لینے کے لئے لکھ رہے ہیں۔