حسام صدیقی
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے چار سال ۲۶ مئی کو مکمل ہو گئے۔ ملک کی سیاسی روایت کے مطابق خود نریندر مودی اور ان کے وزیروں، پارٹی ورکرس اور آر ایس ایس کے لوگوں نے چار سال کی کامیابیوں پر بڑے بڑے بیان دئے سرکار نے ہزاروں کروڑ کے اشتہارات شائع کرائے تو دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے یہ بتایا کہ ان چار سالوں میں ملک کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ دونوں نے اپنے ا پنے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے ثبوت بھی پیش کئے ہیں۔ ہم سرکاری اور اپوزیشن پارٹیوں کے دعوؤں پر یہاں کوئی بات نہیں کریں گے۔ ہم ان باتوں کا ذکر کریں گے جو خود ہم نے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے۔ ان حقائق کو صرف ہمیں نے ہی دیکھا اور محسوس نہیں کیا ہے بلکہ پورے ملک نے دیکھا اور محسو س کیا ہے۔ یہ دیگر بات ہے کہ کچھ لوگ مصلحتاً تو کچھ کسی دباؤ میںان حقائق پر کھل کر چرچا نہیں کررہے ہیں۔ مودی سرکار کے دوران ہم نے ملک کے کئی اہم اداروں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ کچھ کا وقار ختم کیا گیا۔ ان اداروں میں ایک ہے وزیراعظم کا عہدہ، دوسرا ہے پارلیمنٹ، تیسرا ہے ملک کی عدلیہ، چوتھا ہے میڈیا اور پانچواں ہے ہندوستانی معاشرہ، چھٹا ہے ملک کے بینک، ان میں کچھ کومعمولی نقصان پہونچایا گیا ہے تو کچھ کو تقریباً تباہ ہی کردیا گیا ہے۔ نقصان پہونچانے اور تباہ کرنے کا کام باقاعدہ ایک منظم پروگرام کے تحت کیا گیا ہے۔ جن میں سیدھے سیدھے یا بلا واسطہ طور طریقہ سے خود وزیراعظم نریندر مودی کا ہاتھ ہے۔
سب سے پہلے ہم وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کا ذکر کریں گے۔ مودی حالانکہ جھوٹی بات کرتے ہیں لیکن بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ بچپن میں انہوں نے چائے بیچنے کا کام کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ تقریباً اسّی فیصدحکمراں بہت ہی معمولی پس منظر کے ہیں۔ اپنے اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سبھی نے خود کو اپنے بیک گراؤنڈ سے نکال کر حاکم کے عہدے کے وقار کے مطابق ڈھال لیا۔ نریندر مودی شاید پہلے ایسے وزیراعظم ہوں گے جو وزیر اعظم کے عہدے کو کھینچ کراپنی سطح پر لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار پکڑے جانے کے باوجود وہ ابھی ہوئے کرناٹک کے الیکشن تک غلط بیانی کرنے سے باز نہیں آئے۔ زبان ایسی جیسے گاؤں گلی کا کوئی داد ا بول رہا ہو مثلاً کرناٹک الیکشن کے دوران انہوں نے کانگریسیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ ’’حد پار مت کرو ورنہ میں مودی ہوں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘ یہ زبان وزیراعظم کی تو کسی بھی قیمت پر نہیں ہوسکتی۔ مودی نے نہرو سے اٹل بہاری باجپائی اور من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کو تھوڑا بھی پڑھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اتنے بڑے عہدے پرپہونچنے والوں میں کتنی شائستگی آجاتی ہے۔ بھگوان رام کے نام کے سہارے وہ اس حیثیت تک پہونچے ہیں انہی کو ایک بار یاد کرلیتے کہ یہ جانتے ہوئے کہ سیتا جیسی پاک باز خاتون شائد ہی اس وقت کوئی دوسری رہی ہو ں اس کے باوجود ایک معمولی نائی کے طعنے پر ہی انہوں نے سیتا کی اگنی پرکشا لے لی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہیں بھگوان رام کے قائم کئے ہوئے’آدرشوں‘ پر ہی غور کرلینا چاہئے تھا۔ انہوں نے خود کو بڑاثابت کرنے کے لئے مسلسل جھوٹا پروپگینڈہ کیا کہ ستر سالوں میں ملک میں جو نہیںہوا تھاوہ انہوں نے کردکھایا۔
پارلیمنٹ کا اجلاس ٹھیک سے چلے ملک اور عوام کے مسائل پر غورہو بحث ہو اس کی مودی کبھی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آئے۔ ویڈیو ریکارڈس موجود ہیں جب من موہن سنگھ سرکار کے دور میں بی جے پی پارلیمنٹ نہیں چلنے دیتی تھی اس وقت بڑبولے روی شنکر پرساد آنکھیں نکال کر کہتے تھے کہ پارلیمنٹ چلانے کی ذمہ داری اپوزیشن کی نہیں سرکار کی ہوتی ہے۔ اب وہ اپنی ہی بات پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ اسی لئے نہ کہ ان کے آقا نریندر مودی ایسا نہیں چاہتے وہ جوابدہی سے بچتے ہیں۔ عدلیہ کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ سپریم کورٹ کولیجیئم کے فیصلے ماننے کے لئے مودی سرکار تیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک فلم پدم وت دکھانے کا آرڈر کیا اس کے باوجود چار ریاستوں ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور مودی کے اپنے گجرات کی بی جے پی سرکاروں نے سپریم کورٹ کے آرڈرس کو پیروں تلے کچل دیا۔ کیا عدالتوں کی اس سے بھی بڑی کوئی توہین ہوگی؟ ایک نیا فیشن شروع ہوگیا آر ایس ایس کنبہ کے جتنے بھی لوگوں کے خلاف ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک مقدمے چل رہے ہیں سبھی کے گواہ ہی مکرتے جا رہے ہیں، پراسیکیوشن ملزمان کی مدد میں کھڑے نظرآتے ہیں۔ بینکوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ نیرو مودی اور میہول چوکسی جنہیں جلسوں میں نریندر مودی میہول بھائی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے انہیں ہزاروں کروڑ کا قرض دے دیا گیا ان لوگوں نے قرض کی رقم اپنے اور اپنے کنبہ کے لوگوں کے غیر ملکی کھاتوں میں ٹرانسفر کر لی اوربھاگ گئے۔ این پی اے اکاؤنٹس کی وجہ سےملک کے پبلک سیکٹر بینکوں نے اسی سال اپریل سے جون تک پہلی تماہی میں پچاس ہزار کروڑ روپیوں کا خسارہ بتایا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو سال بھر میں یہ خسارہ بڑھ کر دو لاکھ کروڑ سے بھی زیادہ کا ہو جائے گا۔ آخر یہ این پی اکاؤنٹ والے قرضدار کون ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ چور اور بے ایمان ہی ہیں۔ اس کے باوجود نریندر مودی سرکار ان بقایہ داروں کی فہرست سپریم کورٹ کو بھی سونپنے کو تیار نہیں ہے۔ مودی کے تین نزدیکی کارپوریٹ گھرانے مکیش اور انل امبانی، گوتم اڈانی اور ایسار گروپ کی جتنی کل حیثیت ہے اس سےزیادہ بینکوں کے قرض ان پر ہیں۔آخر بینک انہیں پراناقرض واپس وصول کئے بغیر نیا قرض وہ بھی ہزاروں کروڑ میں کیوں اور کس کے کہنے پر دیتے جارہے ہیں؟ اس طرح مودی سرکار کے چار سالوں میں بینکوں کایہ حال ہوچکا ہے۔
ان سب سے بھی جو دو بڑے نقصان مودی سرکار میں ہوئے ہیں وہ ہے میڈیا اور سماجی تانےبانے میں پھیلا نفرت کا زہر۔ ہم بڑے فخر سے پوری دنیا میں کہتے پھرتے تھے ہندوستان سے زیادہ صبر تحمل والا معاشرہ کہیں نہیں ہے۔ ہمیں اس پر فخر ہے۔وہ فخر چار سالوں میں شرم میں تبدیل ہو گیا۔ آج ہم نفرت کے زہر بھرے ماحول میں رہنے کو مجبور ہیں۔ آج ہم دنیا کے اکیلے ایسے ملک میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں ملک کے اسّی فیصد ہندوؤں کو پندرہ اٹھارہ فیصد مسلمانوں سے خوفزدہ کردیا گیا ہے۔ ان میں مسلمانوں کے نام سے عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہندوؤں کی رکشا کے نام پر بے روزگار ہندو نوجوان روز نئے نئے نام کی تنظیمیں کھڑی کرتے جارہے ہیں۔ یہ تنظیمیں سماج میں صرف زہر گھولنے کا کام کرتی رہتی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ تنظیمیں خود پیدا ہورہی ہیں تو مودی اور امت شاہ کی بی جے پی کااس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہوگا۔ قسم قسم کے ناموں سے گلی گلی میں جو ہندو نوجوان اسلحہ لہراتے پھر رہے ہیں انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ پشت پناہی ہی نہیں انہیں پیسےبھی مل رہے ہیں۔ یہ لوگ جتنا بے خوف ہو کر زہریلے بیانات کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہتے ہیں اور قیمتی گاڑیوں اور لاکھوں کی موٹر سائیکلوں پر چلتے ہیں اس کے پیچھے اگر انہیں کہیں سے فنڈنگ نہیں ہورہی ہے تویہ لو گ پیسہ او ر اسلحہ لاتے کہاں سے ہیں؟ تازہ ویڈیو گورو جھا نام کے ایک ایسے ہی زہریلے غنڈے کا آیا ہے ۔ وہ بھگوا کرتا پہنے ہے اور سر پر اسی رنگ کا کپڑا لپیٹے ہوئے ہے۔ خود کو ’جھار کھنڈ ہندو سماج کا صدر‘ بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے اس ملک کو ’مسلمان مکت بھارت‘ بنانا ہے۔ اگر پورا ملک نہ ہو سکا تو کم سے کم جھار کھنڈ سے تو وہ ایک ایک مسلمان کو بھگا کر رہے گا۔ ہفتوں سے یہی ویڈیو وائرل ہو رہا ہے اگر اس شخص کو سرکار کی پشت پناہی نہیں ہے تو اس کے خلاف سماج میں نفرت پیدا کرنے کی دفعات میں مقدمہ درج کرکے اسے جیل میں ڈالا جانا چاہئے تھا۔ الٹے جھار کھنڈ کی بی جے پی سرکار نے اس کی حفاظت کے لئے رائفل وا لے دو پولیس کانسٹیبل تعینات کردیئے۔ مودی سرکار آنے کے بعد اترپردیش میں سو تو بہار اور جھار کھنڈ میں اسّی سے زیادہ ’ہندو رکشا دل اور سینائیں‘ بن چکی ہیں۔ سبھی کی زہریلی باتوں سے سوشل میڈیا بھرا پڑاہے۔ آج تک کسی ایک کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ کاروائی ہو بھی کیسے جن آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں ان کی ’ہندو یوا واہنی‘ کے صدر نے مسلم لڑکیوں اور عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنے کا اعلان کیا ہو انہی آدتیہ ناتھ کو مودی نے اترپردیش جیسی حساس ریاست سونپ دی۔ ریاست کا کچھ بھلا ہوا ہو یا نہ ہواہو گورکھپور ڈویژن تک محدود رہنے والی ہندو یوا واہنی نے ایک سال میں اترپردیش میں ہی نہیں اترا کھنڈ تک ہر ضلع میں اپنی مضبوط برانچ ضرور قائم کرلی ہے۔ ہندوؤں کی حفاظت کے نام پر بنی تنظیمیں بھگوان رام کے آدرش بھی نہیں مانتیں ان کے آدرش تو آئی ایس آئی ایس اور طالبان ہیں تبھی تو سرکار کی ناکامیوں اور خامیوں پر انگلی اٹھانے والے صحافی رویش کمار کا چہرہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے سر پر لگا کر آئی ایس آئی ایس والی تصویر ان ہندو تو وادیوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہو ئے لکھا رویش تمہار ا یہی حشر کیا جائے گا۔ مطلب صاف ہے کہ ان فرضی ہندو محافظوں پر اگر ہندو سماج نے ہی لگام نہ لگائی تو یہ لوگ ہندو طالبان اور آئی ایس آئی ایس کے ہی راستے پر چل پڑیں گے۔ جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ سرکاریں تو آتی جاتی رہتی ہیں آج مودی ہیں کل کوئی اور ہوگا لیکن ملک اور سماج کہاں ہوگا؟
چار سالوں میں مودی، ان کی سرکار اور ان کے آئی ٹی سیل نے مل کر سماج کو برباد کرنے جیسا ہی ایک اور کام کیا ہے کہ میڈیا کا بھروسہ ختم کردیا ہے۔ چند اخبارات اور ایک دو ٹی وی چینلوں کے علاوہ ملک کے بیشتر میڈیا ہاؤسز کا کوئی اعتبار باقی نہیں بچا ہے۔ آج حال یہ ہو گیا ہے کہ میڈیا تو نریندر مودی کا خوشامدی ہے یا پھر دیش دروہی۔ آئی ٹی سیل کی نفرت کی مہم نے مودی کو ملک یا راشٹر کا درجہ دے دیا ہے۔ اب جو کوئی بھی مودی کی کسی غلطی پر انگلی اٹھاتاہے اسے ملک دشمن اور راشٹر دروہی کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ میڈیا سیل میں بیٹھے لوگوں کو بی جے پی کی جانب سے موٹی موٹی تنخواہیں ملتی ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی مودی مخالف پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان کی ماں،بہنوں اور بیٹیوں تک کے لئے بری سے بری گالیاں دی جاتی ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ اٹل بہاری باجپائی کے ساتھ کیبنٹ وزیر رہے ارون شوری نے مودی کی معاشی پالیسیوں کو غلط کہا تو بچپن سے ان کے معذور بیٹے تک پرحملے کئے گئے یہ کون سا ہندوتوہے جو ان بے لگام اندھے مودی بھکتوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ یہ کسی بھی مخالف کیبہن بیٹیوں تک پہونچ جائیں۔ شروگھن سنہا بھی باجپائی کے ساتھ وزیر صحت اور ۲۰۱۴ تک بی جے پی اسٹار کمپینر رہے ہیں انہوں نے مودی کی کچھ پالیسیوں پر انگلی اٹھائی تو بھکتوں کی بھیڑ نے سوشل میڈیا کے ذریعہ ان کی اداکارہ بیٹی سوناکشی سنہا کے کردار تک پر حملے شروع کردیئے۔ لیکن سوناکشی سنہا نے خود ہی ان اندھوں کو منہ توڑ جواب دے دیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کچھ ایسے ہندو دوست بھی مودی اور ان کے آئی ٹی سیل کے پروپگینڈہ کا شکار ہو گئے جن کے ساتھ ہمارے چالیس پچاس سال کے تعلقات ہیں۔ انہیں بھی اب یہ لگنے لگا ہے کہ کچھ بھی ہو ’وندے ماترم‘ اور ’بھارت ماتا کی جئے‘ کو تو مودی نے راشٹر بھکتی کی علامت بنا دیا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ اگر صرف وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے بولنے سے ہی ملک چل سکے تو اچھا ہے لیکن ایسی حقیقت نہیں ہے ذرا سوچئے۔
ان چار سالوں میں ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی فصل کتنی لہلہانے لگی ہے کہ ریپ اورقتل کے ملزمان کی حمائت تک میں ہندوایکتا منچ بنایا جاتا ہے اور ملزمان کے لئے نکالے گئے جلوس میں جئے شری رام ، بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ جس ریگر نے راجستھان میں ایک مسلمان کو لو جہاد کے بہانے نہ صرف بے رحمی سے قتل کیا بلکہ اسے زندہ جلا دیا اس شخص کی جھانکی بنا کر رام نومی کے جلوس میں بھگوان رام سیتا لکشمن کی جھانکی کے ساتھ شامل کردیا گیا۔ یہ اتنی شرمناک بات ہے کہ سوچنے سے ہی شرم آتی ہے۔ جہاں تک سرکار کا تعلق ہے ابھی مودی سرکار ہے ممکن ہے ۲۰۱۹ میں مودی ہی پھر اقتدار میں آ جائیں یا نہ آسکیں سرکار تو آتی جاتی رہے گی لیکن چار سالوں میں اس سرکار نے سماج کو جس حد تک برباد کردیا ہے اس کی بھرپائی ہو پانا بہت مشکل ہے۔ تو کیا ہم یعنی ہندوستان بھی تیزی کے ساتھ پاکستان، افغانستان اور سیریا کے راستے پر چلتے رہیں گے یا ملک کا اکثریتی ہندو سماج اسے سناتنی دھرم والا ہی بنائے رکھنے کے لئے آگے آئے گا۔