تجارتی محصولات کے معاملے پر اتحادیوں کا امریکہ سے اختلاف

steel

فولاد اور ایلومنیم کی درآمد پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے محصولات عائد کیے جانے کے معاملے پر امریکہ اور جی سیون کے رکن ملکوں کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔

جی سیون ملکوں کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کا اجلاس کینیڈا کے وِسلر میں ختم ہو گیا ہے، جس میں محصولات سے آزاد تجارت کے متاثر ہونے کاانتہائی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اجلاس کے میزبان کینیڈا کے سمری بیان میں امریکی وزیر خزانہ سٹیون منیوشن سے کہا گیا ہے کہ رکن ملکوں کی اجتماعی تشویش اور مایوسی سے صدر ٹرمپ کو مطلع کر دیا جائے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کے کیوبِک میں جمعے سے شروع ہونے والے جی سیون سربراہان کے اجلاس میں بات چیت کو جاری رکھا جائے۔

تنقید
جی سیون ممالک کے وزرائے خزانہ نے امریکی صدر ٹرمپ کو محصولات سے متعلق ان کے فیصلے پر ’’افسوس اور مایوسی کا پیغام‘‘ بھیجا ہے۔ سربراہی ملاقات سے قبل ہونے والی اس ملاقات میں کہا گیا ہے کہ تجارتی جنگ سے بچنا اب بھی ممکن ہے۔

دنیا کے سات طاقتور ترین ممالک جی سیون کے سربراہان کا اجلاس آئندہ ہفتے ہونا ہے۔ اس اجلاس سے قبل ان ممالک کے وزارئے خزانہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے اسٹیل اور ایلومینیئم پر اضافی محصولات نافذ کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کینیڈا کے شہر وِسلر میں جی سیون ممالک کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنروں کا تین روزہ اجلاس ہفتہ دو جون کو ختم ہوا۔ اس اجلاس کے دوران امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کو دیگر رکن ممالک کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

جی سیون ممالک میں امریکا کے علاوہ تمام دیگر ممالک جن میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں اور جن میں سے بعض امریکا کے قریب ترین اتحادی بھی ہیں، امریکی درآمدی محصولات کی زد میں آئے ہیں۔ امریکا نے اسٹیل اور ایلمونیئیم کی درآمدات پر یہ محصولات قومی سلامتی کے نام پر عائد کیے ہیں۔

جمعہ یکم جون کو یورپی یونین اور کینیڈا نے عالمی تجارتی تنظیم ’ڈبلیو ٹی او‘ میں ان محصولات کے خلاف اپنے مقدمات بھی درج کرائے ہیں۔ یورپی بلاک اور امریکا کا جنوبی پڑوسی ملک کینیڈا امریکا کو اسٹیل اور ایلمونیئم فراہم کرنے والے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔

اس میٹنگ کے بعد کینیڈا کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اقتصادی حکام نے آئندہ ہفتے کیوبک میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں محصولات کے معاملے پر ’’فیصلہ کن اقدام کی ضرورت‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔

ایک الگ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے جاری ہونے والے بیان کا حصہ نہیں تھے اور یہ کہ ٹرمپ ’’تجارتی تعلقات میں دوبارہ توازن‘‘ چاہتے ہیں۔ منوچن کے مطابق، ’’میں نہیں سمجھتا کہ امریکا کسی بھی طرح عالمی معیشت میں اپنی رہنما حیثیت سے ہٹ رہا ہے، اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ ہم نے ٹیکس اصلاحات کے معاملے پر بہت زیادہ کوششیں کی ہیں اور جس کا امریکی معیشت پر حیران کن اثر ہوا ہے۔‘‘